کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 959
پھریرا دے کر اللہ کے لشکر کے ہمراہ بنو قینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سختی سے محاصر ہ کر لیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال ۲ ھ کی ۱۵ تاریخ۔ پندرہ روز تک ۔یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک ۔ محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ بنو قینقاع نے اس شرط پر ہتھیا ر ڈال دیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جان ومال ، آ ل واولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔
لیکن یہی موقع تھا جب عبد اللہ بن اُبی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں۔ اس نے کہا :’’اے محمد! میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجیے‘‘ واضح رہے کہ بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاخیر کی۔ اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ مگر اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ لیکن اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر دیکھیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس مجھے چھوڑ۔ لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بو لا : ’’نہیں واللہ! میں آپ کو نہیں چھوڑ وں گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرمادیں۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سوزِرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے ؟ واللہ! میں اس سے زمانے کی گردش کا خطرہ محسوس کررہا ہوں۔‘‘
بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گزرا تھا ) رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی۔ البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں نہ رہیں ، چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموال ضبط کر لیے۔ جن میں سے تین کمانیں ، دو زِرہیں ،