کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 953
کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔
اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار پر سان رکھا ئی اور زہر آلود کرائی ، پھر روانہ ہوا اور مدینہ پہنچا ، لیکن ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نگاہ اس پر پڑ گئی …وہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے درمیان جنگ ِ بدر میں اللہ کے عطا کردہ اعزاز واکرام کے متعلق باتیں کررہے تھے …انہوں نے دیکھتے ہی کہا :’’یہ کتا ، اللہ کا دشمن عمیر ، کسی بُرے ہی ارادے سے آیا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! یہ اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار حمائل کیے آیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے میرے پاس لے آؤ۔ عمیر آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلوار کے پرتلے کو اس کے گلے کے پاس سے پکڑ لیا اور انصار کے چند افراد سے کہا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور وہیں بیٹھ جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس خبیث کے خطرے سے چوکنارہو ، کیونکہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ عمیر کو اندر لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی گردن میں اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ ے ہوئے ہیں تو فرمایا :’’عمر ! اسے چھوڑ دو اور عمیر ! تم قریب آجاؤ۔‘‘ اس نے قریب آکر کہا : آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے ، یعنی سلام سے ، جو اہل ِ جنت کا تحیہ ہے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمیر ! تم کیوں آئے ہو ؟ اس نے کہا : یہ قیدی جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے اسی کے لیے آیاہوں۔ آپ لوگ اس کے بارے میں احسان فرمادیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے ؟ اس نے کہا : اللہ ان تلواروں کا بُرا کرے کہ یہ ہمارے کچھ کام نہ آسکیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو ؟ اس نے کہا : بس صرف اسی قیدی کے لیے آیاہو ں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے،اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں ان کا تذکرہ کیا ، پھر تم نے کہا : اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل وعیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیتا۔ اس پر صفوا ن نے تمہارے قرض اور اہل وعیال کی ذمے داری لی بشرطیکہ تم مجھے قتل کردو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے