کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 948
متفرق واقعات: ۲ ھ میں رمضان کا روزہ اور صدقۂ فطر فرض کیا گیا اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تفصیلاً تعیین کی گئی۔ صدقۂ فطر کی فرضیت اور زکوٰۃ کے نصاب کی تعیین سے اس بوجھ اور مشقت میں بڑی کمی آگئی جس سے فقراء مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دوچار تھی ، کیونکہ وہ طلب رزق کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کے امکانات سے محروم تھے۔ پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی وہ شوال ۲ ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی۔ کتنی خوشگوار تھی یہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر ادا کیا تھا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اوراس کی کی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے اور ان کی پیشانیاں اس کے شکر وسپاس کی ادائیگی کے لیے جھکی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے : ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾(۸: ۲۶) ’’اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ، زمین میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایا اور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ ٭٭٭