کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 945
اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (67) لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾(۸: ۶۷، ۶۸ )
’’ کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کرلے۔ تم لوگ دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے ، اور اللہ غالب حکمت والاہے۔ اگر اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے اس پر تم کو سخت عذاب پکڑ لیتا۔‘‘
اور اللہ کی طرف سے جو نوشتہ سبقت کرچکا تھا وہ یہ تھا: ﴿ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ﴾(۴۷: ۴) یعنی ’’مشرکین کو جنگ میں قیدی کرنے کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو۔‘‘
چونکہ اس نوشتے میں قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قبولِ فدیہ پر سزا نہیں دی گئی بلکہ صرف سرزنش کی گئی اور یہ بھی اِس لیے کہ انہوں نے کفار کوا چھی طرح کچلنے سے پہلے قیدی بنا لیا تھا ، اور کہا جاتا ہے کہ آیت مذکورہ بعد میں نازل ہوئی اور جو نوشتہ اللہ کی طرف سے سبقت کرچکا تھا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ اس امت کے لیے مال ِ غنیمت حلال ہے یا کہ اہل بدر کے لیے رحمت ومغفرت ہے۔
بہر حال چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا، اس لیے مشرکین سے فدیہ لیا گیا۔ فدیہ کی مقدار چار ہزار اور تین ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک تھی۔ اہل ِ مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے جبکہ اہل ِ مدینہ لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہووہ مدینے کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ جب یہ بچے اچھی طرح سیکھ جائیں تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں پر احسان بھی فرمایا اور انہیں فدیہ لیے بغیر رہا کردیا۔ اس فہرست میں مطلب بن حنطب ، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں۔ آخر الذکر کو آئندہ جنگ احد میں قید اور قتل کیا گیا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے )