کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 929
لڑتے شہید ہوگئے۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا ، دشمن کے حملوں کی تیزی جاچکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑرہا تھا۔ اس لیے یہ باحکمت منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوشِ جہاد شباب پر تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا۔ وہ صفوں کی صفیں درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔ ان کے جوش و خروش میں یہ دیکھ کر مزید تیز ی آگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف لا رہے ہیں اور پورے یقین وصراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ ’’عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔‘‘ اس لیے مسلمانوں نے نہایت پُر جوش و پرخروش لڑائی لڑی، اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا۔ اور آدمی کاہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کررہا تھا کہ اچانک اس مشرک کے اوپر کو ڑے مارنے کی آواز آئی۔ اور ایک شہسوار کی آواز سنائی پڑی جو کہہ رہا تھا کہ حیزوم! آگے بڑھ۔ مسلمان نے مشرک کو اپنے آگے دیکھا کہ وہ چِت گرا ، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا ، چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو اور یہ سب کا سب ہرا پڑ گیا تھا۔ اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم سچ کہتے ہو ، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔‘‘[1] ابو داؤد مازنی کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لیے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہے۔ ایک انصاری حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب کو قید کر کے لایا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’واللہ ! مجھے اس نے قید نہیں کیا ہے ، مجھے تو ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیا ہے جو نہایت خوبرو تھا اور چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا۔ اب میں اسے لوگوں میں نہیں دیکھ رہا ہو ں۔‘‘ انصاری