کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 922
ہوئے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی ساری حفاظت اور ملجا وماویٰ خود ان کی تلواریں ہیں۔ کوئی اور چیز نہیں۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کوئی آدمی تمہارے آدمی کو قتل کیے بغیر قتل نہ ہوگا ، اور اگر تمہارے خاص خاص افراد کو انہوں نے مار لیا تو اس کے بعد جینے کا مزہ ہی کیاہے ! اس لیے ذرا اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔‘‘ اس موقعے پر ابو جہل کے خلاف ۔جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا ۔ ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا جنگ کے بغیر مکہ واپس جائیں۔ چنانچہ حکیم بن حزام نے لوگوں کے درمیان دوڑ دھوپ شروع کردی۔ وہ عُتبَہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور بولا :’’ابو الولید ! آپ قریش کے بڑے آدمی اور واجب الاطاعت سردار ہیں ، پھر آپ کیوں نہ ایک اچھا کام کرجائیں جس کے سبب آپ کا ذکر ہمیشہ بھلائی سے ہوتا رہے۔ ‘‘ عتبہ نے کہا : حکیم! وہ کون سا کام ہے ؟ اس نے کہا: ’’ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اپنے حلیف عمرو بن حضرمی کا معاملہ ۔ جو سریہ نخلہ میں مارا گیا تھا ۔ اپنے ذمے لے لیں۔‘‘ عتبہ نے کہا:’’ مجھے منظور ہے۔ تم میری طرف سے ا س کی ضمانت لو۔ وہ میرا حلیف ہے ، اس کی دیت کا بھی ذمے دار ہوں اور اس کا جو مال ضائع ہوا اس کا بھی۔‘‘ اس کے بعد عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا :’’تم حنظلیہ کے پوت کے پاس جاؤ کیونکہ لوگوں کے معاملات کو بگاڑنے اور بھڑکانے کے سلسلے میں مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی اندیشہ نہیں۔‘‘ حنظلیہ کے پوت سے مراد ابوجہل ہے۔ حنظلیہ اس کی ماں تھی۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا :’’قریش کے لوگو! تم لوگ محمدؐ اور ان کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم نے انہیں مار لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دکھائی پڑیں گے جنہیں دیکھنا پسند نہ ہوگا ، کیونکہ آدمی نے اپنے چچیرے بھائی کو یا خالہ زاد بھائی کویا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہو گا۔ اس لیے چلے چلو اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اور سارے عرب سے کنارہ کش ہورہو۔ اگر عرب نے انہیں مارلیا تویہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو ، اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا اسے کیا نہ تھا۔‘‘ ادھر حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس پہنچا تو ابو جہل اپنی زِرَہ درست کر رہا تھا۔ حکیم نے کہا کہ اے ابو الحکم ! مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ ابو جہل نے کہا :’’خدا