کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 916
اچھی بات کہی۔ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور اُنہوں نے بھی نہایت عمدہ بات کہی۔ پھر حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض پرداز ہوئے : ’’اے اللہ کے رسول !(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے اس پر رواں دواں رہئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم !ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ : ﴿ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ﴾(۵: ۲۴) ’’تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘ بلکہ ہم کہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو برکِ غما د تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی۔ یہ تینوں کمانڈر مہاجرین سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہیں کے شانوں پر پڑنے والاتھا۔ درآں حالیکہ بیعت ِ عقبہ کی رُو سے ان پر لازم نہ تھا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کریں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکور ہ تینوں حضرات کی باتیں سننے کے بعد پھر فرمایا: ’’لوگو! مجھے مشورہ دو ۔‘‘ مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ رضی اللہ عنہ نے بھانپ لی ، چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ واللہ ! ایسا معلو م ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے کہا :’’ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جوکچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے ، لہٰذا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دشمن سے ٹکراجائیں۔