کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 908
حال درست کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس سے ان کو واقف کرچکا ہے۔ اے اہل ایمان ! اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم ثابت رکھے گا۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جن کے دل جنگ کا حکم سن کر کانپنے اور دھڑکنے لگے تھے۔ فرمایا: ﴿ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ ﴾(۴۷: ۲۰) ’’تو جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہورہی ہو۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کی فرضیت وترغیب اور اس کی تیاری کا حکم حالات کے تقاضے کے عین مطابق تھا حتی کہ اگر حالات پر گہری نظر رکھنے والا کوئی کمانڈر ہوتا تو وہ بھی اپنی فوج کو ہر طرح کے ہنگامی حالات کا فوری مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیتا۔ لہٰذا وہ پرور دگارِ برتر کیوں نہ ایسا حکم دیتا جو ہر کھلی اور ڈھکی بات سے واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات حق وباطل کے درمیان ایک خون ریز اور فیصلہ کن معرکے کا تقاضا کررہے تھے ، خصوصاً سریہ عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے بعد جو کہ مشرکین کی غیرت وحمیت پر ایک سنگین ضرب تھی اور جس نے انہیں کبابِ سیخ بنارکھا تھا۔ احکام ِ جنگ کی آیا ت کے سیاق وسباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ خون ریز معرکے کا وقت قریب ہی ہے اور اس میں آخری فتح ونصرت مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگی۔ آپ اس بات پر نظر ڈالیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں سے مشرکین نے تمہیں نکالا ہے اب تم بھی وہاں سے انہیں نکال دو۔ پھر کس طرح اس نے قیدیوں کے باندھنے اور مخالفین کو کچل کر سلسلہ ٔ جنگ کو خاتمے تک پہنچانے کی ہدایت دی ہے جو ایک غالب اور فاتح فوج سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ اشارہ تھا کہ آخری غلبہ مسلمانوں ہی کو نصیب ہوگا۔ لیکن یہ بات پردوں اور اشاروں میں بتائی گئی تاکہ جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جتنی گرمجوشی رکھتا ہے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرسکے۔ پھر انہی دنوں ۔ شعبان ۲ ھ فروری ۶۲۴ ء میں ۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قبلہ ،