کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 906
اولیاء کو اس کا خون بہاادا کیا۔[1]
یہ ہیں جنگِ بدر سے پہلے کے سریے اور غزوے۔ ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کی نوبت نہیں آئی جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں ایسا نہیں کیا ، اس لیے اس کی ابتدا بھی مشرکین ہی کی جانب سے ہوئی جب کہ اس سے پہلے بھی وہ طرح طرح کی ستم رانیوں کا ارتکاب کرچکے تھے۔
ادھر سَریہ عبد اللہ بن جحش کے واقعات کے بعد مشرکین کا خوف حقیقت بن گیا اور ان کے سامنے ایک واقعی خطرۂ مجسم ہوکر آگیا۔ انہیں جس پھندے میں پھنسنے کا اندیشہ تھا اس میں اب وہ واقعی پھنس چکے تھے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ مدینے کی قیادت انتہائی بیدار مغز ہے اور ان کی ایک ایک تجارتی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہے۔مسلمان چاہیں تو تین سو میل کا راستہ طے کرکے ان کے علاقے کے اندر انہیں مار کاٹ سکتے ہیں ، قید کرسکتے ہیں ، مال لُوٹ سکتے ہیں اور ان سب کے بعد صحیح سالم واپس بھی جاسکتے ہیں۔ مشرکین کی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامی تجارت اب مستقل خطرے کی زد میں ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی حماقت سے باز آنے اور جُہَینہ او ربنو ضمرہ کی طرح صلح وصفائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ غیظ وغضب اور جوشِ بغض وعداوت میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور ان کے صنادید واکابر نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کے گھر وں میں گھس کر ان کا صفایا کردیا جائے گا۔چنانچہ یہی طیش تھا جو انہیں میدانِ بدر تک لے آیا۔
باقی رہے مسلمان تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سریہ کے بعد شعبان ۲ ھ میں ان پر جنگ فرض قرار دے دی اور اس سلسلے میں کئی واضح آیات نازل فرمائیں۔ ارشاد ہوا :
﴿ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰهَ لَا