کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 905
غنیمت سے خمس بھی نکال لیا تھا۔[1] اور یہ اسلامی تاریخ کا پہلا خمس پہلامقتول اور پہلے قیدی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس حرکت پر بازپرس کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے تصرف سے ہاتھ روک لیا۔ ادھراس حادثے سے مشرکین کو اس پروپیگنڈے کا موقع مل گیا کہ مسلمانوں نے اللہ کے حرام کیے مہینے کو حلال کرلیا ، چنانچہ بڑی چہ میگوئیاں ہوئیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس پروپیگنڈہ کی قلعی کھولی اور بتلایا کہ مشرکین جو کچھ کررہے ہیں وہ مسلمانوں کی حرکت سے بدرجہا زیادہ بڑا جرم ہے۔ ارشاد ہوا : ﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾(۲: ۲۱۷ ) ’’ لوگ تم سے حرام مہینے میں قتال کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا یہ سب اللہ کے نزدیک اور زیادہ بڑا جرم ہے اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔‘‘ اس وحی نے صراحت کردی کہ لڑنے والے مسلمانوں کی سیرت کے بارے میں مشرکین نے جو شور برپا کررکھا ہے اس کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ قریش اسلام کے خلاف لڑائی میں مسلمانوں پر ظلم وستم رانی میں ساری ہی حرمتیں پامال کرچکے ہیں۔ کیا جب ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا مال چھینا گیا اور پیغمبر کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ واقعہ شہرحرام (مکہ ) سے باہر کہیں اور کا تھا ؟ پھرکیا وجہ ہے کہ اب ان حرمات کا تقدس اچانک پلٹ آیا اور ان کا چاک کرنا باعث ننگ وعار ہوگیا۔ يقيناً مشرکین نے پروپیگنڈے کا جوطوفان برپا کر رکھا ہے وہ کھلی ہوئی بے حیائی اور صریح بے شرمی پر مبنی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قیدیوں کو آزاد کردیا اور مقتول کے