کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 899
طرح ہوش کے ناخن لینے اور اپنے تمرد سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی ، لیکن اسے فرض قرار نہیں دیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کا جوارشاد نازل ہو ا وہ یہ تھا: ﴿ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ﴾(۲۲: ۳۹) ’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور يقيناً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔‘‘ پھراس آیت کے ضمن میں مزید چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ یہ اجازت محض جنگ برائے جنگ کے طور پرنہیں ہے بلکہ اس سے مقصود باطل کے خاتمے اور اللہ کے شعائر کا قیام ہے۔ چنانچہ آگے چل کر ارشاد ہوا : ﴿ الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ﴾(۲۲: ۴۱) ’’ جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار سونپ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ اداکریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے۔‘‘ صحیح بات جسے قبول کرنے کے سوا چارہ ٔ کار نہیں یہی ہے کہ یہ اجازت ہجرت کے بعد مدینے میں نازل ہوئی تھی ، مکے میں نازل نہیں ہوئی تھی، البتہ وقت ِ نزول کا قطعی تعین مشکل ہے۔ جنگ کی اجازت تو نازل ہوگئی لیکن جن حالات میں نازل ہوئی وہ چونکہ محض قریش کی قوت اور تمرد کا نتیجہ تھے، اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی ہے ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلط کے اس پھیلاؤ کے لیے دو منصوبے اختیار کیے : (۱)ایک:____جو قبائل اس شاہراہ کے اردگرد یا اس شاہراہ سے مدینے تک کے درمیانی علاقے میں آبادتھے ان کے ساتھ حلف (دوستی وتعاون) اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ۔ (۲) دوسرا منصوبہ:____اس شاہراہ پر گشتی دستے بھیجنا۔ پہلے منصوبے کے ضمن میں یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ پچھلے صفحات میں یہود کے ساتھ کیے گئے