کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 892
اورفرماتے :’’وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھالے اوراس کے بازو میں رہنے والا پڑوسی بھوکا رہے۔‘‘[1]
اور فرماتے :’’مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اوراس سے مارکاٹ کرنا کفر ہے۔‘‘ [2]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیتے تھے اور اسے ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ شمار کرتے تھے۔[3]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقے اور خیرات کی ترغیب دیتے تھے اور اس کے لیے ایسے ایسے فضائل بیان فرماتے تھے کہ اس کی طرف دل خود بخود کھنچتے چلے جائیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ صدقہ گناہوں کو ایسے ہی بجھادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔[4]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کوکپڑا پہنادے اللہ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلادے اللہ اسے جنت کے پھَل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلادے اللہ اسے جنت کی مُہر لگی ہوئی شراب طہور پلائے گا۔‘‘[5]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :’’آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے ، اور اگر وہ بھی نہ پاؤ تو پاکیزہ بول ہی کے ذریعے۔‘‘[6]
اور اسی کے پہلو بہ پہلو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگنے سے پرہیز کی بھی بہت زیادہ تاکید فرماتے ، صبر وقناعت کی فضیلتیں سناتے اور سوال کرنے کو سائل کے چہرے کے لیے نوچ ، خراش اور زخم قرار دیتے۔[7] البتہ اس سے اس شخص کو مُستثنیٰ قرار دیا جو حد درجہ مجبور ہوکر سوال کرے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی بیان فرماتے کہ کن عبادات کے کیا فضائل ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کا کیا اجر وثواب ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آسمان سے جو وحی آتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مسلمانوں کو بڑی پختگی کے ساتھ مربوط رکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ وحی مسلمانوں کو پڑھ کرسناتے اور