کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 883
لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں۔ بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کیلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جاپہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا۔ یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا، اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکااور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ درحقیقت مکے کے ان سرکشوں اور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالاجائے۔
مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں ، جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں ، اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ’’جیسے کا تیسا‘‘ والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کا موقع نہ مل سکے۔
______________________________
یہ تھے وہ قضا یا اور مسائل جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یاسختی ودرشتی جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا ، یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلا م کے ہاتھ آگئی۔ اگلے صفحات میں انہی باتوں کی تفصیلات ہدیۂ قارئین کی جائیں گی۔
٭٭٭