کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 881
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور قباء میں بنو عمر و بن عوف کے یہاں نزول فرماہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے۔ بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے۔ میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی ، لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے:
کیا یہ وہی ہے ؟
انہوں نے کہا : ہاں ! اللہ کی قسم۔
چچا نے کہا: آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں ؟
والد نے کہا: ہاں!
چچانے کہا : تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں؟
والد نے کہا : عداوت ۔ اللہ کی قسم ۔جب تک زندہ رہوں گا۔[1]
اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے۔ آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے۔ اگر انہیں اس سے قبل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دریافت فرمائیں ، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا۔ وہ آئے ۔ اور ادھر عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن سلام گھر کے اندر چھپ گئے تھے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عبد اللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ’’ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں، ہمارے سب اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں‘‘ __ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار