کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 880
1۔ بنو قینقاع:____یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی۔
2۔ بنو نضیر
3۔ بنو قریظہ:____یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ا ن دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔
ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیا ن جنگ کے شعلے بھڑکارہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے۔
فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سواکوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو، جواُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی، سکون ملتا۔ پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی۔ بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی۔تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابندبناتی تھی۔اِ س کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماًوہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے ، لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلا عوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیالیا تھا۔
جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کررکھا تھا۔ اسی لیے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی ، اگرچہ وہ اس کے مظاہر ے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے۔ اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن ِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے۔
ان کاارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی۔ میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھا تے۔