کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 879
ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے ، جیسے چاہیں کھائیں۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے : ﴿ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ ﴾(۳: ۷۵) ’’انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں۔‘‘ یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کو ئی پکڑ نہیں۔ ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی۔ لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری ، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ۔ انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے۔ یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی۔ غلّے ، کھجور ، شراب ، اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی۔ یہ غلے ، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے۔ وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے۔ اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے۔ جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے۔ ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گرو ی رکھوالیتے تھے۔ اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے۔ یہ لوگ دسیسہ کاریوں ، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے۔ ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا۔ اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپارہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سر د پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی۔ کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کاتماشا دیکھتے۔ البتہ بھاری بھرکم سود ی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہر انفع کماتے رہتے۔ ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے۔ یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے: