کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 878
اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مَدّ ِ مقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے۔ ان میں سرِ فہرست عبد اللہ بن ابی ا بن سلول تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ ِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے ، یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگیا، اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپؐ ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے، لہٰذاوہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپا ئے ہوئے تھا۔ اس کے باوجود جب اس نے جنگ ِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیا وی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا ، لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا، اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا۔ اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا۔ یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کوبھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنالیتے تھے۔
(ج) تیسری قوم:____یہود تھی ۔ جیسا کہ گزرچکا ہے ۔ یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھا گ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع ، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی ۔۔ یہودی۔۔ قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا : بدھو ، وحشی ، رذیل ، پسماندہ اور اچھوت۔