کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 877
’’جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں۔‘‘
چونکہ ان سارے مسائل کی تفصیل ہمارے موضوع میں داخل نہیں اس لیے ہم اس پر بقدر ضرورت گفتگو کریں گے۔
بہرحال یہی سب سے عظیم مسئلہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے تعلق سے درپیش تھا اور بڑے پیمانے پر یہی دعوتِ اسلامیہ اور رسالتِ محمدیہؐ کا مقصود بھی تھا۔ لیکن یہ کوئی ہنگامی مسئلہ نہ تھا بلکہ مستقل اور دائمیتھا۔ البتہ اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے۔ جن کی مختصرکیفیت یہ ہے :
مسلمانوں کی جماعت میں دوطرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو خود اپنی زمین ، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اوراس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکرنہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل وعیال میں امن وسکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے۔ یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشتہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفر تیں چلی آرہی تھیں۔ ان کے پہلوبہ پہلودوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کر کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا۔ ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہوسکے ، پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا تھا کیونکہ اعلان کردیا گیا تھا جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ آجائے ، اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی نہ آمدنی کے ذرائع ووسائل۔ چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کردیا جس سے درآمدات بند ہوگئیں اور حالات انتہائی سنگین ہوگئے۔
(ب) دوسری قوم:____یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے ۔ کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی۔ کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّدمحسوس کررہے تھے ، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے۔ اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے۔