کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 876
علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور رَذِیل وذلیل کا موں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمامِ کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی۔ ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا۔ اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب وعمرانیات ، معاشیات واقتصادیات ، سیاست وحکومت اور صلح وجنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال وحرام اور عبادات واخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھر پور تنقیح کی جائے۔
وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ، یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالمِ انسانی کے اندرموجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت ِ اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔
ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن ، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کیے جائیں اور قانون سازی کا کام مشق وتربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے۔ اب جہاں تک احکام وقوانین صادر اور فراہم کرنے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا کفیل تھا اور جہاں تک ان احکام کے نفاذ اور مسلمانوں کی تربیت ورہنمائی کا معاملہ ہے تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامور رتھے۔ چنانچہ ارشادہے :
﴿ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ﴾(۶۲: ۲)
’’وہی ہے جس نے اُمِیّوں میں خود انہیں کے اندر سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک وصاف کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے اور یہ لوگ يقيناً پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہمہ تن متوجہ رہتے اور جو حکم صادر ہوتا اس سے اپنے آپ کو آراستہ کر کے خوشی محسوس کرتے، جیسا کہ ارشاد ہے :
﴿ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾(۸: ۲)