کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 870
پڑے۔ [1] (اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے ) اور حرہ کی پشت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔ ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمر و بن عوف (ساکنان ِ قباء ) میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی۔ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لیے نکل پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر تحیہ نبوت پیش کیا اور گرد وپیش پر وانوں کی طرح جمع ہوگئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی : ﴿فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ﴾(۶۶: ۴) ’’اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں۔‘‘[2] حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے، اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے۔ یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ بیٹھے تھے۔ انصار کے جولوگ آتے تھے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہ تھا وہ سیدھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ آگئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر تان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا۔ تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا۔ یہ ایک تاریخی دن تھا ، جس کی نظیر سر زمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ آج یہود نے بھی حبقوق نبی کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا ’’کہ اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔‘‘[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں کلثوم بن ہدم…اور کہا جاتا ہے کہ سعد بن خیثمہ…کے مکان میں قیام فرمایا۔ ___پہلا قول زیادہ قوی ہے۔ ادھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جوامانتیں