کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 868
میں نے تیر کی نافرمانی کی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا۔ یہاں تک کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت سن رہا تھا اور آپ التفات نہیں فرماتے تھے ، جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار مڑ کر دیکھ رہے تھے ______ تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جاپہنچے اور میں اس سے گرگیا۔ پھر میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے اٹھنا چاہا لیکن وہ اپنے پاؤں بمشکل نکال سکا۔ بہر حال جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے پاؤں کے نشان سے آسمان کی طرف دھویں جیسا غبار اُڑرہا تھا۔ میں نے پھر پانسے کے تیر سے قسمت معلوم کی اور پھر وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا۔ اس کے بعد میں نے امان کے ساتھ انہیں پکارا تو وہ لوگ ٹھہر گئے۔اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پاس پہنچا جس وقت میں ان سے روک دیا گیا تھا اسی وقت میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعاملہ غالب آکر رہے گا۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلے دیت(کا انعام ) رکھاہے اور ساتھ ہی میں نے لوگوں کے عزائم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا اور توشہ اور سازو سامان کی بھی پیش کش کی۔ مگر انہوں نے میرا کوئی سامان نہیں لیا اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا۔ صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق رازداری برتنا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پروانہ ٔ امن لکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر میرے حوالے کردیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔[1] اس واقعے سے متعلق خود ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی ایک روایت ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ روانہ ہوئے تو قوم ہماری تلاش میں تھی مگر سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا ۔جو اپنے گھوڑے پر آیا تھا ۔ اور کوئی ہمیں نہ پاس کا۔ میں نے کہا :اے اللہ کے رسول ! یہ پیچھا کرنے والا ہمیں آلینا چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لا تحزن إن اللّٰہ معنا)) ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ [2] بہر حال سراقہ واپس ہوا تو دیکھا کہ لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کہنے لگا: ادھر کی کھوج خبر لے