کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 865
اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جوہم نے چاہا تھا۔ میں نے اس سے کہا : اے جوان تم کس کے آدمی ہو ؟ اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا۔ میں نے کہا: تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے ؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: دوھ سکتا ہوں۔ اس نے کہا:ہاں اور ایک بکری پکڑی۔ میں نے کہا: ذرا تھن کومٹی ، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو۔ اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا لیکن گوارانہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تومیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! پی لیجئے۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا: ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا ؟ میں کہا: کیوں نہیں ؟ اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔[1]
2۔ اس سفر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف رہا کرتے تھے۔ یعنی سواری پر حضورؐ کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔ اس لیے لوگوں کی توجہ انہیں کی طرف جاتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کم جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھتا کہ یہ آپ کے آگے کون ساآدمی ہے ؟ (حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے ) فرماتے : ’’یہ آدمی مجھے راستہ بتا تا ہے۔‘‘ اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے۔[2]
3۔ اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اُمّ معبد خزاعیہ کے خیمے سے ہو ا۔ یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔ اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں۔ ہاتھ میں گھٹنے ڈالے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں : واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں۔ یہ قحط کا زمانہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے۔ فرمایا : ام معبد ! یہ کیسی بکری ہے؟ بولیں:اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے