کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 864
ہے۔ انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دوحصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب ذاتُ النّطاقین پڑ گیا۔[1]
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کوچ فرمایا۔ عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔ دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔
غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دورتک لے گیا۔ پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا۔ پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے۔شمال کی طرف مڑ گیا ، یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذونادر ہی کوئی چلتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب راہنماآپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیرین مکہ سے لے چلا پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیر ین عسفان سے راستہ کاٹا ، پھر زیرین امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قد ید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کا ٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہو ا خرار سے گزرا۔ پھر ثنیۃ المرہ سے ، پھر لقف سے ، پھر بیابان لقف سے گزرا ، پھر مجاح کے بیابان یں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا۔ پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا۔ پھر ذی کشرکی وادی میں داخل ہوا۔ پھر جدا جدکا رخ کیا۔ پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابا ن تعہن کے وادئ ذو سلم سے گزرا۔ وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا۔ پھر عرج میں اترا۔ پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قبا ء پہنچ گیا۔[2]
آیئے ! اب راستے کے چند واقعات بھی سنتے چلیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھراور دن میں دوپہر تک چلتے رہے۔ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا ، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی جس کے سائے پردھوپ نہیں آئی تھی۔ ہم وہیں اترپڑے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش کی دیکھ بھا ل کے لیے نکلا۔ اچانک کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک چرواہا