کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 856
کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہا ں رہتا ہے۔ بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہوجائے گی۔
مگر شیخ نجدی نے کہا : نہیں۔ اللہ کی قسم ! یہ مناسب رائے نہیں ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے میٹھے ہیں اور جو کچھ لاتا ہے اس کے ذریعے کس طرح لوگوں کا دل جیت لیتا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا تو کچھ اطمینان نہیں کہ وہ عرب کے کسی قبیلے میں نازل ہوا ور انہیں اپنا پیروبنا لینے کے بعد تم پر یورش کردے ، اور تمہیں تمہارے شہر کے اندر روند کرتم سے جیسا سلوک چاہے کرے۔ اس کے بجائے کوئی اور تجویز سوچو۔
ابوالبختری نے کہا: اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور باہر سے دروازہ بند کردو۔ پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلا: زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہوچکا ہے۔
شیخ نجدی نے کہا : نہیں۔ اللہ کی قسم! یہ بھی مناسب رائے نہیں۔ واللہ !اگر تم لوگوں نے اسے قید کردیا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو اس کی خبر بند دروازے سے باہر نکل کر اس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی۔ پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پردھاوا بول کر اس شخص کو تمہارے قبضے سے نکال لے جائیں۔ پھر اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کرلیں۔۔ لہٰذا یہ بھی مناسب رائے نہیں، کوئی اور تجویز سوچو۔
یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ رد کر چکی تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی۔ جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابوجہل تھا۔ اس نے کہا : اس شخص کے بارے میں میری ایک رائے ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے ، لوگوں نے کہا : ابوالحکم وہ کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میری رائے یہ ہے کہ ہم ہرہر قبیلے سے ایک مضبوط ، صاحبِ نسب اوربان کا جوان منتخب کر لیں، پھر ہر ایک کو تیز تلوار دیں۔ اس کے بعد سب کے سب اس شخص کا رخ کریں اوراس طرح یکبار گی تلوار مار کر قتل کردیں ، جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو۔ یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے۔ لہٰذادیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کردیں گے۔[1]
شیخ نجدی نے کہا : بات یہ رہی جوا س جوان نے کہی۔ اگر کوئی تجویز اور رائے ہوسکتی ہے تو یہی ہے، دیگر ہیچ۔
اس کے بعد پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی تنفیذ علی الفور کرنی ہے۔
٭٭٭