کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 852
لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی۔ مگر عیاش نہ مانے ، انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو۔ یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے۔ اس کی پیٹھ نہ چھوڑ نا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا۔
عیاش اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے کہا : بھئی میرا یہ اونٹ تو بڑاسخت نکلا۔ کیوں نہ تم مجھے بھی اپنی اس اونٹنی پر پیچھے بٹھالو۔ عیاش نے کہا : ٹھیک ہے اور اس کے بعد اونٹنی بٹھادی۔ ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریان بٹھائیں۔ تاکہ ابوجہل عیاش کی اونٹنی پر پلٹ آئے ، لیکن جب تینوں زمین پر آگئے تو یہ دونوں اچانک عیاش پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور اسی بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا کہ اے اہلِ مکہ ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے۔[1]
عازمین ہجرت کا علم ہوجانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے۔ اس کے یہ تین نمونے ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے۔ چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا ۔۔ یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ارشاد رکے ہوئے تھے،البتہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا ساز وسامان تیار کر کے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رخت سفر بھی بندھا ہواتھا۔[2]
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں