کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 840
اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھا یا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے۔ لو گوں نے دیکھتے ہی کہا : ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسراہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔ پھر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبد الاشہل ! تم لو گ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں۔ سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔ انہوں نے کہا : اچھا تو سنو ! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاؤ۔ ان کی اس بات کا یہ اثر ہواکہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہوگئی ہو۔ صرف ایک آدمی جس کا نا م اُصیرم تھا اس کا اسلام جنگِ احد تک موخر ہوا۔ پھر احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتا ہو ا کام آگیا۔ اس نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ ، حضرت اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورت مسلمان نہ ہوچکی ہوں۔ صرف بنی امیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے۔ مشہور شاعر ابو قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے۔ اس شاعر نے انہیں جنگ خندق ( ۵ ہجری ) تک اسلام سے روکے رکھا۔ بہرحال اگلے موسمِ حج، یعنی تیرہویں سال نبوت کا موسمِ حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کامیابی کی بشارتیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبائل یثرب کے حالات ، ان کی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں ، اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔ [1] ٭٭٭٭