کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 834
درحقیقت ان کی نگاہوں میں دنیا کی ساری قوتیں مل کر بھی مچھرکے پَر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اسی لیے وہ ان قوتوں کی طرف سے ہونے والی سختیوں اور ایذا رسانیوں کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔
اس واقعۂ معراج کی جزئیات کے پس پردہ مزید جو حکمتیں اور اسرار کا رفرما تھے ان کی بحث کا اصل مقام اسرارِ شریعت کی کتابیں ہیں۔ البتہ چند موٹے موٹے حقائق ایسے ہیں ، جو اس مبارک سفر کے سر چشموں سے پُھوٹ کر سیرت نبوی کے گلشن کی طرف رواں دواں ہیں، اس لیے یہاں مختصرا ًانہیں قلمبند کیا جارہا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اسراء میں اسراء کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کر کے کلام کا رخ یہود کی سیاہ کاریوں اور جرائم کے بیان کی جانب موڑدیا ہے۔ پھرانہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھی اور صحیح راہ ہے۔ قرآن پڑھنے والے کو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ دونون باتیں بے جوڑ ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس اسلوب کے ذریعے یہ اشارہ فرمارہا ہے کہ اب یہود کو نوعِ انسانی کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا اب یہ منصب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپا جائے گا اور دعوت ِ ابراہیمی کے دونوں مراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے۔ بلفظ دیگر اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردی جائے۔ یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ غدر وخیانت اور ظلم وبدکاری سے بھری ہوئی ہے ، یہ قیادت چھین کر ایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں گے اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ بتانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔
لیکن یہ قیادت منتقل کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس امت کا رسول مکے کے پہاڑوں میں لوگوں کے درمیا ن ٹھوکریں کھا تا پھر رہا ہے ؟ اس وقت یہ ایک سوال تھا جو ایک دوسری حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا ایک دور اپنے خاتمے اور اپنی تکمیل کے قریب آلگا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہونے والا ہے جس کا دھارا پہلے سے مختلف ہوگا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیا ت میں مشرکین کو کھلی وارننگ اور سخت دھمکی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے :