کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 833
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا پھر جیسا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ، لیکن ان سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔ [1]
کہاجاتا ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسی موقع پر صدیق کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ آپ نے اس واقعے کی اس وقت تصدیق کی جبکہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی۔ [2]
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی وہ یہ ہے :
﴿ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾(۱۷: ۱)
’’تاکہ ہم (اللہ تعالیٰ) آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔‘‘
اور انبیاء کرام کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ ارشاد ہے۔
﴿ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ﴾ (۶: ۷۵)
’’اسی طرح ہم نے ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان وزمین کا نظامِ سلطنت دکھلایا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔‘‘
اور موسی علیہ السلام سے فرما یا :
﴿ لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى﴾ (۲۰: ۲۳)
’’تاکہ ہم تمہیں اپنی کچھ بڑی نشانیاں دکھلائیں۔‘‘
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصد تھا۔ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد ﴿ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴾ (۶: ۷۵) (تاکہ یقین کرنے والوں میں سے ہو) کے ذریعے واضح فرمادیا۔ چنانچہ جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علوم کو اس کے مشاہدات کی سند حاصل ہوجاتی تھی تو انہیں عین الیقین کا وہ مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں کہ ’’شنید ہ کے بود مانند دیدہ‘‘ اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کی راہ میں ایسی ایسی مشکلات جھیل لیتے تھے جنہیں کوئی اور جھیل ہی نہیں سکتا۔