کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 832
پانی کا منبع جنت میں ہے ( واللہ اعلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک ، داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگا رے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خوروں کوبھی دیکھا۔ ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کر نے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کا روں کو بھی دیکھا۔ ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا۔ یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہر وں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں۔ (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں ، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑ ے بڑے ٹیڑھے کا نٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا۔ اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔ [1]
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی اور اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کی خبردی جواللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت وضررسانی میں اور شدت آگئی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں۔ اس پر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ چنانچہ