کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 831
تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں؟پھر امام ابن تیمیہؒ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دوقول منقول ہیں۔ ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں اس کے بعد امام ابن قیم لکھتے ہیں کہ سور ہ ٔ نجم میں اللہ تعالیٰ کا جویہ ارشاد ہے :
﴿ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى﴾ (۵۳: ۸)
’’پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا ‘‘
تو یہ اس قربت کے علاوہ ہے جو معراج کے واقعے میں حاصل ہوئی تھی کیونکہ سورۂ نجم میں جس قربت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام کی قربت وتَدَلّی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے اور سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف حدیث معراج میں جس قربت وتدلّی کا ذکر ہے اس کے بارے میں صراحت ہے کہ یہ رب تبارک وتعالیٰ سے قربت وتدلّی تھی اور سورہ ٔ نجم میں اس کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا ہے۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری بار سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، اور یہ حضرت جبریل صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اپنی شکل میں دومرتبہ دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم[1]
اس دفعہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے ) کا واقعہ پیش آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سفر کے دوران کئی چیز یں دکھلائی گئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دودھ اور شراب پیش کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ اختیار فرمایا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فطرت کی راہ بتائی گئی ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت پالی اور یا درکھئے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب لی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں چار نہریں دیکھیں۔ دوظاہری اور دوباطنی ، ظاہری نہریں نیل وفرات تھیں۔یعنی ان کا عنصر تھا اور باطنی دونہریں جنت کی دونہریں ہیں۔ (نیل وفرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت نیل وفرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم )