کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 830
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باد دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اس کے بیر (پھل) ہجر کے ٹھلیوں جیسے اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے۔ پھر اس پر سونے کے پتنگے ، روشنی اور مختلف رنگ چھا گئے اور وہ سدرہ اس طرح بدل گیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے تھے۔ جن کے دوبارہ پلٹنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اس کے بعد آپ کو جنت میں داخل کیا گیا، اس میں موتی کے گنبد تھے اور اس کی مٹی مشک تھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید اوپر لے جایا گیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی برابر جگہ نمودار ہوئے جہاں قلموں کے چرچراہٹ سنی جارہی تھی۔
پھر اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دوکمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچاس نمازوں کا ، انہوں نے کہا :آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے ، اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں۔ اگر آپ ؐچاہیں۔ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبار تبار ک و تعالیٰ کے حضور لے گئے ، اور وہ اپنی جگہ تھا …بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے …اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے لائے گئے۔ جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ورفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوواپسی اور طلب تخفیف کا مشور ہ دیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ [1]
اس کے بعد ابن قیمؒ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب