کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 829
پیش کر رہے ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے جسم مبارک سمیت بُراق پر سوار کر کے حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نزول فرمایا اور انبیاء علیہم السلام کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی اور بُراق کومسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا۔
اس کے بعد اسی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دورازہ
کھلوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دروازہ کھولا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہا ں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحبا کہا۔ سلام کا جواب دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں حضر ت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا۔ دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا۔ دونوں نے سلام کا جواب دیا ، مبارک باددی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باددی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ مرحبا کہا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک بادد ی اوراقرار نبوت کیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا: مرحبا کہا ، اور اقرار نبوت کیا۔ البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا: آپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے رورہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگو ں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔