کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 826
قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بنو ذُہل کے ایک آدمی کے درمیان سلسلہ نسب کے متعلق بڑا دلچسپ سوال وجواب بھی ہوا۔ دونوں ہی ماہر انساب تھے۔ [1]
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔[2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جاپہنچے، یہ یثرب کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ نام یہ ہیں :
1 اسعد بن زُرَارَہ (قبیلۂ بنی النَّجار )
2 عوف بن حارث بن رفاعہ (ابن عَفْراء ) ( ؍؍ ؍؍ ؍؍ )
3 رافع بن مالک بن عجلان (قبیلۂ بنی زُریق )
4 قطبہ بن عامر بن حدیدہ (قبیلۂ بنی سلمہ )
5 عقبہ بن عامر نابی (قبیلہ بنی حرام بن کعب )
6 حارث بن عبد اللہ بن رِئاب (قبیلۂ بنی عبید بن غنم )
یہ اہل یثرب کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا
(صحیح مسلم ، مشکاۃ المصابیح باب علامات النبوۃ ۲/۵۲۵ )
(دیکھئے : مختصرالسیرہ للشیخ عبد اللہ ص ۱۵۰تا ۱۵۲ )
جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا۔ ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں عادِ ارَم کی طرح قتل کر ڈالیں گے۔ [3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس پہنچ کر دریافت کیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا :ہم قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یعنی یہود کے حلیف ؟ بولے: ہاں۔ فرمایا : پھر کیوں نہ آپ حضرات بیٹھیں،کچھ بات چیت کی جائے، وہ لوگ بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلا م کی حقیقت بیان فرمائی۔ انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : بھئی دیکھو ! یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کا حوالہ دے کر یہود تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہود تم پر سبقت نہ کرنے پائیں، اس کے بعد انہوں نے فوراًآپ ؐ کی دعوت قبول کرلی اور مسلمان ہوگئے۔