کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 824
بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں ، مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا ، پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں؟اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا، بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپؐ گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت ، پھر کان میں روئی ٹھونسنے ، اور اس کے باوجود آپؐ کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں۔ پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی۔ چنانچہ میں نے وہیں اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے میں ان کے پاس پلٹ کرجاؤں گا اور انہیں اسلام کی دعوت دوں گا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ حضرت طفیل کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی۔ انہوں نے کہا : یا اللہ ! چہرے کے بجائے کسی اور جگہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے، چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی۔ پھر انہوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوں مسلمان ہوگئے لیکن قوم نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی مگر حضرت طفیل رضی اللہ عنہ بھی مسلسل کوشاں رہے حتیٰ کہ غزوۂ خندق کے بعد[1]جب انہوں نے ہجرت فرمائی توا ن کے ساتھ ان کی قوم کے ستر یا اسی خاندان تھے۔ حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے ے اسلام میں بڑے اہم کارنامے انجام دے کر یمامہ کی جنگ میں جام شہادت نوش فرمائی۔[2] 5۔ضماد ازدی :…یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد شنوء ہ کے ایک فرد تھے۔جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا۔ مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پاگل ہیں۔ سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ، اور کہا : اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم)میں آسیب اتارنے کے لیے