کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 823
د صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا : اٹھو۔ اس بے دین کی خبر لو ، لوگ اٹھ پڑے۔ مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجاؤں لیکن حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے آبچایا۔ انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے : تمہاری بربادی ہو۔ تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہو ؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہوکر جاتی ہے۔ اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جوکچھ کل کہا تھا آج پھر کہا اور لوگوں نے پھر کہا: اٹھو !اس بے دین کی خبر لو۔ اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوچکا تھا اور آج بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی نے مجھے آبچایا، وہ مجھ پر جھکے پھر ویسی ہی بات کہی جیسی کل کہی تھی۔[1] 4۔ طفیل بن عمر و دوسی:____یہ شریف انسان شاعر ، سوجھ بوجھ کے مالک اور قبیلہ ٔ دوس کے سردار تھے۔ ان کے قبیلے کو بعض نواحی یمن میں امارت یا تقریبا ًامارت حاصل تھی۔ وہ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے۔ پھر ان سے عرض پرداز ہوئے کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر تشریف لائے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے۔ ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ اس کی بات جادو کاسا اثر رکھتی ہے کہ آدمی اور اس کے باپ کے درمیان اور آدمی اس کے بھائی کے درمیا ن اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے۔ ہمیں ڈرلگتا ہے کہ جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے۔ لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں۔ حضرت طفیل رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے یہاں تک کہ میں تہیہ نے کرلیاکہ نہ آپ کی کوئی چیز سنوں گا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کروں گا۔ حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے ، لیکن اللہ کومنظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے۔ چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں ! میں تو واللہ! ایک سوجھ