کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 821
سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں ؟ ان سب کہا: وہ کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتا ب بھی اتاری ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔
ایاس بن معاذ بولے : اے قوم یہ اللہ کی قسم! اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن وفد کے ایک رکن ابو الحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: یہ چھوڑو ! میری عمر کی قسم ! یہاں ہم اس کے بجائے دوسرے ہی مقصد سے آئے ہیں۔ ایاس نے خاموشی اختیار کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اٹھ گئے۔ وفد قریش کے ساتھ حلف وتعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا۔
مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس انتقال کر گئے۔ وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی۔[1]
3۔ابوذر غفاری :____یہ یثرب کے اطراف میں سکونت پذیر تھے۔ جب سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو غالباً یہ خبر ابوذر رضی اللہ عنہ کے کان سے بھی ٹکرائی اور یہی ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔ [2]
ان کے اسلا م لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے مروی ہے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قبیلہ غفار کا ایک آدمی تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مکے میں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا : تم اس آدمی کے پاس جاؤ، اس سے بات کرو اور میرے پاس اس کی خبر لاؤ۔ وہ گیا ، ملاقات کی ، اور واپس آیا۔ میں نے پوچھا : کیا خبر لائے ہو ؟ بو لا : اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے ، اور برائی سے روکتا ہے۔ میں نے کہا :تم نے تشفی بخش خبر نہیں دی۔ آخر میں نے خود توشہ دان اور ڈنڈا اٹھا یا اور مکہ کے لیے چل پڑا۔ (وہاں پہنچ تو گیا ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتا نہ تھا اور یہ