کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 814
تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا ، جب میں نے اپنے آپ کو عبدیالیل بن عبد ِ کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا، مگر اس نے میری بات منظور نہ کی تو میں غم والم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب پہنچ کر ہی افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے پکارکر کہا : آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی قوم نے آپ سے جو بات کہی اللہ نے اسے سن لیا ہے۔ اب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور سلا م کر نے کے بعد کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! بات یہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)جو چاہیں …اگر چاہیں کہ میں انہیں دوپہاڑوں[1] کے درمیان کچل دوں____تو ایسا ہی ہوگا____نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کر ے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب میں آپ کی یگانۂ روز گا ر شخصیت اور ناقابلِ ادراک گہرائی رکھنے والے اخلاق عظیمہ کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہر حال اب سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والی اس غیبی مدد کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مطمئن ہوگیا اور غم والم کے بادل چھٹ گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کی راہ پر مزید پیش قدمی فرمائی اور وادی ٔ نخلہ میں جافروکش ہوئے۔ یہاں دوجگہیں قیام کے لائق ہیں ایک السیل الکبیر اور دوسرے زیمہ۔ کیونکہ دونوں ہی جگہ پانی اور شادابی موجود ہے ، لیکن کسی ماخذ سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کس جگہ قیام فرمایا تھا۔ وادیٔ نخلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام چند دن رہا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی[3]جس کا ذکر قرآن مجید میں دوجگہ آیا ہے۔ ایک