کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 813
ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے ، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔‘‘
ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابنائے ربیعہ نے اس حالتِ زار میں دیکھا تو ان کے جذبۂ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا بلا کر کہا کہ اس انگور سے ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آؤ۔ جب اس نے انگور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا۔
عداس نے کہا: یہ جملہ توا س علاقے کے لوگ نہیں بولتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور تمہارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا :میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا باشندہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ! تم مرد صالح یونس بن متیٰ کی بستی کے رہنے والے ہو۔ اس نے کہا: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)یونس بن متٰی کو کیسے جانتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے بھائی تھے، وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ یہ سن کر عداس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا۔
یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا: لو ! اس شخص نے ہمارے غلام کو بگاڑ دیا۔ اس کے بعد عداس واپس گیا تودونوں نے اس سے کہا: ا جی ! یہ کیا معاملہ تھا ؟ اس نے کہا: میرے آقا ! روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی اور نہیں۔ اس نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان دونوں نے کہا : دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے پھیر نہ دے، کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔
قدرے ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پر چل پڑے۔ غم والم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا۔ قرنِ منازل پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گزارش کر نے آیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو وہ اہل مکہ کو دوپہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے۔
اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، ان کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو احد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں !