کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 808
’’جن لوگوں نے مظلومیت کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہم انہیں يقيناً دنیا میں بہترین ٹھکانہ عطا کریں گے اور آخرت کا اجر بہت ہی بڑا ہے اگر لوگ جانیں۔‘‘
اسی طرح کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پوچھا تو جواب میں ضمناً یہ آیت بھی نازل ہوئی:
﴿ لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ﴾ (۱۲: ۷)
’’یوسف اور ان کے بھائیوں (کے واقعے ) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
یعنی اہل مکہ جو آج حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پوچھ رہے ہیں یہ خود بھی اسی طرح ناکام ہوں گے جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائی ناکام ہوئے تھے اور ان کی سپر اندازی کا وہی حال ہوگا جوا ن کے بھائیوں کا ہوا تھا۔ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعے سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ ظالم کا حشر کیا ہوتا ہے۔ ایک جگہ پیغمبروں کا تذکرہ کر تے ہوئے ارشاد ہوا :
﴿ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ، وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ﴾ (۱۴: ۱۳ ،۱۴)
’’کفار نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے ضرور نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہماری ملت میں واپس آجاؤ۔ اس پر ان کے رب نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو يقيناً ہلاک کردیں گے اور تم کو ان کے بعد زمین میں ٹھہرائیں گے۔یہ (وعدہ) ہے اس شخص کے لیے جومیرے پاس کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔‘‘
اسی طرح جس وقت فارس وروم میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور کفار چاہتے تھے کہ فارسی غالب آجائیں کیونکہ فارسی مشرک تھے اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی غالب آجائیں۔ کیونکہ رومی بہر حال اللہ پر ، پیغمبروں پر ، وحی پر ، آسمانی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کے دعویدار تھے لیکن غلبہ فارسیوں کو حاصل ہوتا جارہا تھا تو اس وقت اللہ نے یہ خوشخبری نازل فرمائی کہ چند بر س بعد رومی غالب آجائیں گے، لیکن اسی ایک بشارت پر اکتفاء نہ کی بلکہ اس ضمن میں یہ بشارت بھی نازل فرمائی کہ رومیوں کے غلبے کے وقت اللہ تعالیٰ مومنین کی بھی خاص مدد فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے :