کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 806
بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتلادیا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی گمراہی اورعناد پر مصررہے توا س کے نتائج کس قدر سنگین ہوں گے۔ اس کی دلیل میں گزشتہ قوموں کے ایسے واقعات اور تاریخی شواہد پیش کیے گئے تھے جن سے واضح ہوتا تھا کہ اللہ کی سنت اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں کیا ہے۔ پھر اس ڈراوے کے پہلو بہ پہلو لطف وکرم کی باتیں بھی کہی جارہی تھیں اور افہام وتفہیم اور ارشاد ورہنمائی کا حق بھی ادا کیا جارہا تھا تاکہ باز آنے والے اپنی کھلی گمراہی سے باز آسکیں۔ درحقیقت قرآن مسلمانوں کو ایک دوسری ہی دنیا کی سیر کراتا تھا اور انہیں کائنات کے مشاہد ، ربوبیت کے جمال ، الوہیت کے کمال ، رحمت ورافت کے آثار اور لطف ورضا کے ایسے ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ ان کے جذب وکشش کے آگے کوئی رکاوٹ برقرار ہی نہ رہ سکتی تھی۔ پھر انہیں آیات کی تہہ میں مسلمانوں سے ایسے ایسے خطاب بھی ہوتے تھے جن میں پروردگار کی طرف سے رحمت ورضوان اور دائمی نعمتوں سے بھری ہوئی جنت کی بشارت ہوتی تھی اور ظالم وسرکش دشمنوں اور کافروں کے ان حالات کی تصویر کشی ہوتی تھی کہ وہ رب العالمین کی عدالت میں فیصلے کے لیے کھڑے کیے جائیں گے۔ ان کی بھلائیاں اورنیکیاں ضبط کر لی جائیں گی اور انہیں چہروں کے بل گھسیٹ کر یہ کہتے ہوئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا کہ لو جہنم کا لطف اٹھاؤ۔ % کامیابی کی بشارتیں:…ان ساری باتوں کے علاوہ مسلمانوں کو اپنی مظلومیت کے پہلے ہی دن سے ____بلکہ اس کے بھی پہلے سے____معلوم تھا کہ اسلام قبول کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دائمی مصائب اور ہلاکت خیز یاں مول لے لی گئیں، بلکہ اسلامی دعوت روزِ اول سے جاہلیت جہلاء اور اس کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے عزائم رکھتی ہے اور اس دعوت کا ایک اہم نشانہ یہ بھی ہے کہ وہ روئے زمین پر اپنا اثر ونفوذ پھیلائے اور دنیا کے سیاسی موقف پر اس طرح غالب آجائے کہ انسانی جمعیت اور اقوامِ عالم کو اللہ کی مرضی کی طرف لے جاس کے اور انہیں بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرسکے۔ قرآن مجید میں یہ بشارتیں ____کبھی اشارتاً اور کبھی صراحتاً…نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک