کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 804
اللہ آپ کا بدلہ ان سے لے کر رہے گا"۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کیا ہوئے"؟ انہوں نے کہا "یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں"۔ کہا "کوئی بات نہیں"۔ بولیں "آپ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) صحیح سالم ہیں"۔ پوچھا "کہاں ہیں؟"۔ کہا "ابن ارقم کے گھر میں ہیں"۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا "اچھا تو پھر اللہ کے لیے مجھ پر عہد ہے کہ میں نہ کوئی کھانا کھاؤں گا یہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں"۔ اس کے بعد ام الخیر اور ام جمیل رکی رہیں۔ جب آمد و رفت بند ہو گئی اور سناٹا چھا گیا تو یہ دونوں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر نکلیں۔ وہ ان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اس طرح انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا دیا۔[1]
محبت و جاں سپاری کے کچھ اور بھی نادر واقعات ہم اپنی اس کتاب میں موقع بہ موقع نقل کریں گے۔ خصوصاً جنگ احد کے واقعات اور حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے حالات کے ضمن میں۔
3۔احساسِ ذمہ داری: …صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ یہ مشتِ خاک جسے انسان کہا جاتا ہے اس پر کتنی بھاری بھرکم اور زبردست ذمہ داریاں ہیں اور یہ کہ ان ذمہ داریوں سے کسی صورت میں گریز اور پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس گریز کے جو نتائج ہوں گے وہ موجودہ ظلم وستم سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت آفریں ہوں گے اور اس کے گریز بعد خود ان کو اور ساری انسانیت کو جو خسارہ لاحق ہوگا وہ اس قدر شدید ہوگا کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات اس خسارے کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
4۔ آخرت پر ایمان: …جو مذکورہ احساسِ ذمہ داری کی تقویت کا باعث تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کا غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ انہیں رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی و غیرمعمولی ہر طرح کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو نعمتوں بھری دائمی جنت ہوگی یاعذاب سے بھڑکتی ہوئی جہنم۔ اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی زندگی امید وبیم کی حالت میں گزارتے تھے۔ یعنی اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتے تھے اور اس کے عذاب کا خوف اور ان کی کیفیت وہی رہتی تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ :
﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ﴾ (المؤمنون ۲۳: ۶۰)