کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 803
تو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو ان کے لیے دیدہ و دل اور جان و روح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے حبِّ صادق کے جذبے اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتا ہے اور جان و دل اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے جیسے لوہا مقناطین کی طرف کھنچتا ہے۔
فصورتہ ھیولٰی کل جسم و مقناطیس افئدۃ الرجال
’’آپ کی صورت ہر جسم کا ہیُولیٰ تھی اور آپ کا وجود ہر دل کے لیے مقناطیس۔‘‘
اس محبت و فداکاری اور جاں نثاری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام کو یہ گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ناخن میں خراش تک آ جائے یا آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا ہی چبھ جائے خواہ اس کےلیے گردنیں ہی کیوں نہ کوٹ دی جائیں۔
ایک روز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بری طرح کچل دیا گیا اور انہیں سخت مار ماری گئی۔ عُتیبہ بن ربیعہ ان کے قریب آ کر انہیں دو پیوند لگے جوتوں سے مارنے لگا۔ چہرے کو خصوصیت سے نشانہ بنایا گیا۔ پھر پیٹ پر چڑھ گیا، کیفیت یہ تھی کہ چہرے اور ناک کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پھر ان کے قبیلہ بنو تَیم کے لوگ انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب یہ زندہ نہ بچیں گے لیکن دن کے خاتمے کے قریب ان کی زبان کھل گئی۔ (اور زبان کھلی تو یہ) بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کیا ہوئے؟ اس پر بنو تَیم نے انہیں سخت سست کہا۔ ملامت کی اور ان کی ماں ام الخیر سے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ انہیں کچھ کھلا پلا دینا۔ جب وہ تنہا رہ گئیں تو انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کھانے پینے کے لیے اصرار کیا لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ یہی کہتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا کیا ہوا؟ آخر کار ام الخیر نے کہا "مجھے تمہارے ساتھی کا حال معلوم نہیں"۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا "ام جمیل بنت خطاب کے پاس جاؤ اور اس سے دریافت کرو"۔ وہ ام جمیل کے پاس گئیں اور بولیں "ابوبکر رضی اللہ عنہ تم سے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں"۔ ام جمیل نے کہا "میں نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جانتی ہوں نہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کو۔ البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ تمہارے صاحبزادے کے پاس چل سکتی ہوں۔" ام الخیر نے کہا بہترہے۔ اس کے بعد ام جمیل ان کے ہمراہ آئیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ انتہائی خستہ حال پڑے تھے۔ پھر قریب ہوئیں تو چیخ پڑیں اور کہنے لگیں "جس قوم نے آپ کی یہ درگت بنائی ہے وہ یقینًا بدقماش اور کافر قوم ہے۔ مجھے امید ہے