کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 802
بہتر سے بہتر جو جملہ پا سکتا تھا اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ اسی طرح اس کی تفصیل بھی گزر چکی ہے کہ جب حالتِ سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اوجھڑی ڈالی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سر اٹھانے کے بعد اس حرکت کے کرنے والوں پر بد دعا کی تو ان کی ہنسی ہوا ہو گئی۔ اور ان کے اندر غم و قلق کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہم بچ نہیں سکتے۔[1]
یہ واقعہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابولہب کے بیٹے عُتَیبہ پر بددعا کی تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بد دعا کی زد سے بچ نہیں سکتا، چنانچہ اس نے ملک شام کے سفر میں شیر کو دیکھتے ہی کہا’’واللہ، محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) نے مکہ میں رہتے ہوئے مجھے قتل کر دیا۔‘‘[2]
ابیّ بن خلف کا واقعہ ہے کہ وہ بار بار آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قتل کی دھمکیاں دیا کرتا تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جوابًا فرمایا کہ (تم نہیں) بلکہ میں تمہیں قتل کروں گا، ان شاء اللہ۔ اس کے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جنگ احد کے روز ابیّ کی گردن پر نیزہ مارا تو اگرچہ اس سے معمولی خراش آئی تھی لیکن ابیّ برابر یہی کہے جا رہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا اس لیے اگر وہ مجھ پر تھوک ہی دیتا تو بھی میری جان نکل جاتی۔[3] (تفصیل آگے آ رہی ہے)
اسی طرح ایک بار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے مکے میں امیّہ بن خلف سے کہہ دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان تمہیں قتل کر دیں گے تو اس سے امیّہ پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی، جو مسلسل قائم رہی۔ چنانچہ اس نے عہد کر لیا کہ وہ مکے سے باہر ہی نہ نکلے گا اور جب جنگِ بدر کے موقع پر ابوجہل کے اصرار سے مجبور ہو کر نکلنا پڑا تو اس نے مکے کا سب سے تیز رو اونٹ خریدا تا کہ خطرے کی علامات ظاہر ہوتے ہیں چَمپَت ہو جائے۔ ادھر جنگ میں جانے پر آمادہ دیکھ کر اس کی بیوی نے بھی ٹوکا کہ "ابو صفوان! آپ کے یثربی بھائی نے جو کچھ کہا تھا اسے آپ بھول گئے؟"۔ ابو صفوان نے جواب دیا کہ نہیں، بلکہ میں خدا کی قسم ان کے ساتھ تھوڑی ہی دور جاؤں گا۔ [4]
یہ تو آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کا حال تھا۔ باقی رہے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور رفقاء