کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 801
طبیعتیں خود بخود آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نچھاور ہوتی تھیں، کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اتنا بھرپور حصہ ملا تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم شرف وعظمت اور فضل و کمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے، عفت و امانت، صدق و صفا اور جملہ امورِ خیر میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو وہ امتیازی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی یکتائی و انفرادیت پر کبھی شک نہ گذرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان سے جو بات نکل گئی، دشمنوں کو بھی یقین ہو گیا کہ وہ سچی ہے اور ہو کر رہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دو ساتھیوں سے چھپ چھپا کر قرآنِ مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہو گیا تھا۔ ان ہی تین آدمیوں میں سے ایک ابوجہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ابو جہل نے کہا: “میں نے کیا سنا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبدِ مناف نے شرف و عظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء و مساکین کو) کھلایا تو ہم نے بھی کھلایا، انہوں نے داد دہش میں سواریاں عطا کیں تو ہم نے بھی عطا کیں، انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا، یہاں تک کہ جب ہم اور وہ گھٹنوں گھٹنوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہو گئے اور ہامری اور ان کی حیثیت ریس کے دو مدِّ مقابل گھوڑوں کی سی ہو گئی تو اب بنو عبدِ مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) ہے جس کےپاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتائیے ہم اسے کب پا سکتے ہیں؟ خدا کی قسم! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے”۔ (ا) چنانچہ ابو جہل کہا کرتا تھا “اے محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں” اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰهِ يَجْحَدُونَ﴾(الأنعام 6: 33) "یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔" اس واقعے کی تفصیل گزر چکی ہے کہ ایک روز کفار نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت! میں تمہارے پاس ذبح (کا حکم) لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان پر اس طرح اثر کر گئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا وہ بھی