کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 795
زیر نگیں آجائے گا۔"
بہر حال جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سےگئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کریں؟ آخرکار ابو جہل نے کہا: ’’اچھا بتاؤ وہ بات کیا ہے؟‘‘تمہارے باپ کی قسم! ایسی ایک بات تو کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں"۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آپ لوگ لا الہ الا اللہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا:’’محمّد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔‘‘
پھر آپس میں ایک دوسرے سے بولے: "خدا کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔لہٰذا چلو اور اپنے آباؤاجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ،یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے"۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس واقعے کے بعد انہی لوگوں کے بارے میں قران مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم
﴿ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ ،بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّۃٍ وَشِقَاقٍ ،كَمْ اَھْلَكْنَا مِن قَبْلِھِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلاتَ حِينَ مَنَاصٍ،وَعَجِبُوا اَن جَاءَھُم مُّنذِرٌ مِّنْھُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ ھَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ،أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ،وَانطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْھُمْ اَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِھَتِكُمْ اِنَّ ھَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ، مَا سَمِعْنَا بِھَذَا فِي الْمِلَّۃِ الآخِرَہِ اِنْ ھَذَا اِلاَّ اخْتِلاقٌ﴾(ص۳۸: 1۔7)
’’ ص۔ قسم ہے نصیحت سے بھرے ہوئے قران کی۔ بلکہ جنہوں نے کفر کیا ہیکڑی اور ضد میں ہیں۔ہم نے کتنی ہی قومیں ان سے پہلے ہلاک کر دیں اور وہ چیخے چلاّئے (لیکن اس وقت) جبکہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔انہیں تعجّب ہے کہ ان کے پاس خود ان ہی میں سے ڈرانے والا آگیا۔کافر کہتے ہیںکہ یہ جادوگر ہے۔ بڑا جھوٹا ہے۔کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا ڈالا! یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ اور ان کے بڑے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔یہ ایک سوچی سمجھی بات ہے۔ہم نے کسی اور ملّت میں یہ بات نہیں سنی۔یہ محض گھڑنت ہے۔‘‘[1]