کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 794
بہرحال قریش کا یہ وفد ابو طالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت و شنید کی۔وفد کے ارکان قریش کے معزّز ترین افراد تھے یعنی عُتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، امیّہ بن خلف،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشراف قریش جن کی کل تعداد تقریبا: پچیس تھی۔
انہوں نے کہا:
’’اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ و مقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں،ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور انکے بارے میں ہم سے کچھ عہدو پیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہدو پیمان لیں یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں،وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو انکے دین پر چھوڑ دیں۔‘‘
اس پر ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائےتو کہا:’’بھتیجے! یہ تمہاری قوم کے معزّز لوگ ہیں،تمہارے ہی لئے جمع ہوئے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہدو پیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہدو پیمان دے دو‘‘ اس کے بعد ابو طالب ان کی پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کرے۔
جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کو مخاطب کرکے فرمایا:’’آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہو جائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیر نگیں آجائے تو آپ کی کیا رائے ہوگی؟"بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صٌی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا: "میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہو جائیں تو عرب انکے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔‘‘
ایک اور روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا:"چچا جان! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے!"انہوں نے کہا:"تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو؟"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہو جائیں تو عرب ان کا تابعفرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہو جائے۔‘‘___ابن اسحٰق کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائینگے اور عجم آپ کے