کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 784
ابن اسحٰق نے یزید بن زیاد کے واسطے سے محمد بن کعب قرظی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ عُتبہ بن ربیعہ نے جو سردار قوم تھا، ایک روز قریش کی محفل میں کہا____ اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں ایک جگہ تن تنہا تشریف فرما تھے____ کہ قریش کے لوگو! کیوں نہ محمّد کے پاس جا کر ان سے گفتگو کروں، اور انکے سامنے چند امور پیش کروں، ہو سکتا ہے وہ کوئی چیز قبول کرلیں۔تو جو کچھ وہ قبول کر لیں گے،اسے دے کر ہم انہیں اپنے آُ سے باز رکھیں گے! یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے اور مشرکین نے یہ دیکھ لیا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
مشرکین نے کہا: ابو ولید! آپ جائیے اور ان سے بات کیجئے۔اس کے بعد عتبہ اٹھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔اور پھر بولا: "بھتیجے! ہماری قوم میں تمہارا جو مرتبہ اور مقام ہے اور جو بلند پایہ نسب ہے،وہ تمہیں معلوم ہی ہے، اور اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے آئے ہو جسکی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں تفرقہ ڈال دیا، ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار قرار دیا، انکے معبودوں کو اور انکے دین داروں کی عیب چینی کی، اور انکے آباؤاجداد جو گزر چکے ہیں انہیں کافر ٹہرایا۔ لہٰذا میری بات سنو! میں تم پر چند باتیں پیش کر رہا ہوں، ان پر غور کرو، ہو سکتا ہے کوئی بات قبول کرلو"۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو ولید کہو! میں سنوں گا"۔ ابو ولید نے کہا: " بھتیجے! یہ معاملہ جسے تم لیکر آئے ہو اگر اس سے تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کئے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ،اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزازومرتبہ حاصل کرو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملے کا فیصلہ نہ کرینگے، اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنئے لیتے ہیں؛ اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن یا بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لئے اسکا علاج تلاش کئے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا اتنا مال خرچ کرنے کو تیار ہیں کہ تم شفا یاب ہو جاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آجاتا ہے اور اسکا علاج کروانا پڑتا ہے۔‘‘
عُتبہ یہ باتیں کہتا رہا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہے، جب وہ فارغ ہو چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ابو ولید! تم فارغ ہو گئے ہو؟" اس نے کہا: "ہاں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اچھا اب میری بات سنو"! اس نے