کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 782
سر پر آگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھک کر بیٹھ گئے، لوگ سر پر سوارتھے۔حضرت عمر نے کہا جو بن پڑے کر لو۔ خدا کی قسم اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکّے میں یا تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔[1] اس کے بعد مشرکین نے اس ارادے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر پر ہلّہ بول دیا کہ انہیں جان سے مار ڈالیں، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر خوف کی حالت میں گھر کے اندر تھے کہ اس دوران ابو عمر و عاص بن وائل سہمی آگیا۔وہ دھاری دار یمنی چادر کا جوڑا اور ریشمی گوٹے سے آراستہ کرتا زیب تن کئے ہوئے تھا۔ اسکا تعلق قبیلہ سہم سے تھا اور یہ قبیلہ جاہلیت میں ہمارا حلیف تھا۔اس نے پوچھا کیا بات ہے؟ حضرت عمر نے کہا میں مسلمان ہو گیا ہوں اس لئے آپ کی قوم مجھے قتل کرنا چاہتی ہے۔عاص نے کہا: یہ ممکن نہیں،عاص کی بات سن کر مجھے اطمینان ہو گیا۔اس کے بعد عاص وہاں سے نکلا اور لوگوں سے ملا۔اس وقت حالت یہ تھی کہ لوگوں کی بھیڑ سے وادی کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔عاص نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہی خطاب کا بیٹا مطلوب ہے جو بے دین ہو گیا ہے۔عاص نے کہا اس کی طرف کوئی راہ نہیں۔ یہ سنتے ہی لوگ واپس چلے گئے۔[2] ابن اسحٰق کی ایک روایت میں ہے کہ واللہ ایسا لگتا تھا گویا وہ لوگ ایک کپڑا تھے جسے اس کے اوپر سے جھٹک کر پھینک دیا گیا ہو۔[3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی۔باقی رہے مسلمان تو انکے احوال کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا ؟ تو انہوں نے کہا: مجھ سے تین دن پہلے حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انکے اسلام لانے کا واقعہ بیان کر کے اخیر میں کہا پھر جب میں مسلمان ہو گیا تو_____ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم حق پہ نہیں ہیں خواہ زندہ رہیں خؤاہ مریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں____ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ حق پر ہو خواہ زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو______