کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 781
کو سنائی پڑی۔[1]معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زورآوری کا یہ حال تھا کہ کوئی ون سے مقابلے کی جراءت نہ کرتا تھا۔اس لئے ان کے مسلمان ہو جانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت و رسوائی محسوس ہوئی۔دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت و قوت ،شرف و اعزاز اور مسرت و شادمانی حاصل ہوئی۔چنانچہ ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کے مکّے کا کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے؟ پھر میں نے جی ہی جی میں کہا۔ یہ ابو جہل ہے۔ اس کے بعد میں نے اس کے گھر جا کر اسکا دروازہ کھٹکھٹایا۔وہ باہر آیا اور دیکھ کر بولا: اھلا" و سھلا"( خوش آمدید، خوش آمدید) کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا: تمہیں بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکا ہوں اور جو کچھ وہ لیکر آئے ہیں اس کی تصدیق کر چکا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کردیا اور بولا! اللہ تیرا برا کرے! اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اسکا بھی برا کرے۔[2] امام ابن جوزی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہو جاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے،اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا۔اس لئے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاصی بن ہاشم کے پاس گیااور اسے خبر دی۔وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا۔شایدابو جہل کی طرف اشارہ ہے____ اور اسے خبر دی وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔[3] ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر حجمی کے پاس گئے یہ شخص کسی بھی بات کاڈھول پیٹنے میں پورے قریش میں سب سے زیادہ ممتاز تھا۔حضرت عمر نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس نے یہ سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا ابن خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے ہی بولے: یہ جھوٹ کہتا ہے میں مسلمان ہو گیا ہوں۔بہر حال لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہو گئی۔ لوگ حضرت عمر کو مار رہے تھے یہاں تک کہ سورج