کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 779
لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ نُعیم بن عبداللہ الخام عدوی[1] سے یا بنی زہرہ [2] یا بنی مخزوم [3] کے کسی آدمی سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے تیور دیکھ کر پوچھا: عمر ! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ اس نے کہا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو۔ اس نے کہا عمر! ایک عجیب بات نہ بتا دوں! تمہارے بہن بہنوئی بھی تمہارا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر عمر غصّے سے بے قابو ہو گئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا۔ وہاں انہیں حضرت خبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ سورہ طہٰ پر مبنی ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قران پڑھانے کے لئے وہاں آنا جانا حضرت خبّاب رضی اللہ عنہ کا معمول تھا۔ جب حضرت خبّاب نے حضرت عمر کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے۔ ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن نے صحیفہ چھپا دیا؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خبّاب کی قراءت سن چکے تھے؛ چنانچہ پوچھا یہ کیسی دھیمی دھیمی سی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی؟ انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں، بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: غالبا" تم دونوں بے دین ہو چکے ہو؟ بہنوئی نے کہا: اچھا عمر! یہ بتاؤ! اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اور دین میں ہو تو؟ حضرت عمر کا یہ سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلود ہو گیا۔ابن اسحٰق کی روایت ہے کہ ان کے سر میں چوٹ آئی۔بہن نے جوش غضب میں کہا: عمر! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا دین ہی برحق ہو تو؟اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰہَ الاَ اللّٰہ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُولُ اللّٰہمیں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت محسوس ہوئی، کہنے لگے؛ اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔